جو اُڑ رہے ہیں خلاؤں میں سرپھروں کی طرح
بکھر نہ جائیں کہیں ریت کے گھروں کی طرح
اب اس کے بعد میں شاید نظر نہیں آؤں
’’مجھے سمیٹ لے آنکھوں میں منظروں کی طرح‘‘
کسی بھی طرح میں آباد ہو نہیں پایا
کئی صدی سے ہوں ویران کھنڈروں کی طرح
شناخت اپنی کوئی ہے کہاں زمانے میں
ہم اپنے گھر میں ہی رہتے ہیں بے گھروں کی طرح
شہید کردی گئی جب سے بابری مسجد
اداس میں بھی ہوں سیفیؔ کبوتروں کی طرح
No comments:
Post a Comment