قرار دل کو نہیں اور ہے اضطراب میں پاؤں
ہیں بحرِ زیست میں گویا کہ موجِ آب میں پاؤں
مرا خیال ہے یا شور کوئی سن کے جسے
خیال و وہم کی الجھے طناب میں پاؤں
طلب متاعِ جہاں کی جنھیں ہو جان عزیز
وہ کیا رکھیں گے کبھی دورِ انقلاب میں پاؤں
جنونِ شوق ذرا جاگ دور ہے منزل
پہنچ نہ جائیں کہیں منزلِ جواب میں پاؤں
کوئی بتا ئے ہمیں ہوگی اس کی کیا تعبیر
کہ رات خواب میں رکھے تھے آفتاب میں پاؤں
نفس نفس ہے یہی خوف آصفہؔ دل میں
بہک نہ جائیں کہیں عالمِ شباب میں پاؤں
آصفہ انجم کامٹوی
NearGhausiaMadrasa.
BhoiLane.Kampti.Nagpur
No comments:
Post a Comment