یہ اور بات لگوں میں گداگروں کی طرح
مزاج رکھتا ہوں اپنا سکندروں کی طرح
خبر نہ تھی کہ وہی راہزن مرا ہوگا
جو چل رہا تھا مرے ساتھ رہبروں کی طرح
نکل کے سانپ بلوں سے نہ ڈس لیں ہم کوبھی
خموش بیٹھے رہے ہم بھی پتھروں کی طرح
شبِ فراق ضرورت پڑے گی تجھ کو بھی
’’مجھے سمیٹ لے آنکھوں میں منظروں کی طرح‘‘
پہنچ گیا ہے رسالوں کے شہر میں آصفؔ
چلا جو شہرِ سخن سے سخنوروں کی طرح
No comments:
Post a Comment