ہمیں جو راہ دکھاتا ہے رہبروں کی طرح
مزاج رکھتا ہے اپنا قلندروں کی طرح
حویلیوں کی میں زینت ہوں راستے کی نہیں
مرا وجود ہے انمول پتھروں کی طرح
جو کوسوں دور ہے علم و ادب کی دنیا سے
صلاح دیتا پھرے ہے سخنوروں کی طرح
میں آئینہ ہوں حقیقت کا آج کے یُگ میں
’’مجھے سمیٹ لے آنکھوں میں منظروں کی طرح‘‘
ہمارے دل میں قیامت کا شور ہے دانشؔ
یہ اور بات کہ چپ ہیں سمندروں کی طرح
No comments:
Post a Comment