Breaking

Post Top Ad

Monday, February 19, 2018

📚 *انٹرویو ایونٹ -ادبی کہکشاں

 *انٹرویو ایونٹ -ادبی کہکشاں (2018)* 
انٹرویو نمبر  9
جناب تنور اشرف کا انٹرویو پڑھا__اچھا لگا موصوف نے تیسری یا چوتھی جماعت سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا__متاثر کیا
- چیئرمین صاحب نے اپنے قلم سے نوازا___ دلچسپ واقعہ ہے -
تنویر اشرف کو غزل پسند ہے اور غزل ہر دور میں مقبول رہی ہے___ جبکہ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی تصنیف مقدمہ شعر و شاعری میں غزل پر سخت تنقید کی تھی پھر بھی غزل کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑا اور غزل آج بھی ہر کسی کی پسندیدہ ہے -
آپ افسانے بھی پسند کرتے ہیں جان کر خوشی ہوئی -
گریجویش کر رہے ہیں اچھی بات____خوشی ہوئی -
آپ کی پسند بھی خوب ہے - نوجوان شاعر ہے____
پر سکون ماحول میں تخیل کی پرواز اونچی ہو جاتی ہے -
ماشاءاللہ آپ ایک ادبی گروپ کے ایڈمن بھی ہے -
آپ نے قارئین کو بڑا اچھا پیغام دیا ہے -
واقعی مدنی مجاہد سلیم، زارا فراز صاحبہ اور دیگر منتظمین بہت محنت کر رہے ہیں - اور ادبی کہکشاں گروپ ایک فعال ادبی گروپ ہے -
موجود حالات کی آپ نے بڑی اچھی عکاسی کی ہے -
بے شک مذہب اسلام تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے -
بہت بہت مبارک ہو_____
( محمد علیم اسماعیل، ناندورہ، مہاراشٹر )
"ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات"
جی ہاں.... یہ کہاوت ایک بچے پر ہے جس کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں! اور وہ بچہ اسماعیل یار علوی کے گھر مالیگاؤں کی ادبی فضاؤں میں پیدا ہوا پلا بڑا، مجاہد و اسد ہاشمی جیسے چمکدار بچوں میں پروان چڑھا.... اور آج عالمی ادبی منظر نامے میں اپنی ستائش و تحسین اور شعرا و ادبا کے اکرام و احترام کے حوالے سے  اہل ادب نگاہوں کے سامنے ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آج اہل ادب کا محبوب نگاہ *تنویر اشرف* ہے! .....  اسے اس کی عمر سے بڑی تحریروں، تبصروں، اور ادبی کار گزاریوں کے سبب میں  کبھی "تمُ" کہہ کر مخاطب نہیں کرسکا گرچہ جانتا تھا سن و سال کے معاملے میں تنویر نوخیز ہیں...احترام عمر کا ہوتا ہے لیکن فضیلت علم و شعور کے سبب ہوتی ہے تنویر اشرف کی ادبی کوششیں دیکھنا میرے لیے اپنے گزرے دس سال کا اعادہ دیکھنے جیسا تھا اس لیے ان کے علمی استفسار، استفادے تبصرے  طرز طلب اور منکسر رویے سے اپنائیت سی ہوگئی.... لہذا محبت بھرا تخاطب "تنویر بھائی" مراسلت و معاملت کا اولین جز ہوگیا..... کہتے ہیں الفاظ لکھنے والے کے مزاج، معیار اور شخصیت کے آئنہ دار ہوتے ہیں اس لحاظ سے تنویر بھائی کو میں نے ٹوٹ کر چاہنے اور بہت چاہا جانے والا شخص پایا.... احتیاط اعتدال ملنساری انکسار احترام یہ وہ صفات ہیں جو انسان کو بڑا بناتی ہیں انہی کے سبب تنویر بھی جلد بڑے ہوگئے...... سوچتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ ابھی یہ حال ہے تو آنے والے وقت میں کیا ہوگا.....لیکن میری محبت اپنائیت اور احساسِ حقیقت تنویر اشرف سے یہ بات کہنے پر مصر ہیں کہ
"تنویر بھائی! عمر کی اگلی منزلیں کچھ گراں بار ذمہ داریاں اور ادب کی طویل مسافتیں، آپ سے "تخلیقی و منصبی تقاضے" کریں گی جنہیں پورا کرنے پر ہی آپ جادہ ء علم و ادب کے سنگ میل اور کامیاب انسان ثابت ہوں گے!......"
دعا ہے کہ خالق و مالک آپ کو اسم بامسمی بنائے اور آپ آسمان کا درخشاں ستارہ ہوں... جو اپنی تنویر کے سب " اشرف "کہلائے..... آمین ثم آمین
مخلص
(ادیؔب علیمی)
حالیہ برسوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم کے سبب اردو سے بے بہرہ ہوتی ہمہاری نسلیں ، اپنی تہذیب اور وراثت سے نا واقف ، صرف اور صرف مادہ پرستی کے رحجان کے سبب اعلی تعلیم اور اونچے عہدوں کی تمنا رکھنے والے نوجوانوں کی بھیڑ میں عزیزی تنویر اشرف کی شخصیت سے متعارف ہوئی تو بے پناہ مسرت اور فخر کا احساس ہوا کہ " ابھی ایسے محب اردو ہیں جو بچپن سے ہی اپنی زبان و ادب کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں. "
وراثت میں یوں تو بہتوں کو " بہت کچھ " ملتا ہے.. لیکن اس بیش قیمت سرمائے کی حفاظت اور قدر بہت کم لوگ کر پاتے ہیں. تنویر اشرف نے اس ورثے کو اپنا سرمایہ حیات بنایا اور بڑے افتخار سے ادبی راہوں کے مسافر بن گئے اور منزلیں قدم چومنے لگیں.
ہر سوال کا نپا تلا ، برجستہ جواب محظوظ کر گیا.
اللہ کرے یہ تنویر عالم ادب کو منوّر کرتی رہے. اور نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہو.  بہت ساری دعائیں اور نیک تمنائیں
(رخسانہ نازنین)
*تنویر اشرف.....* . یہ نام ادبی کہکشاں کے لئے کبهی غیر متعارف رہا ہی نہیں.... کہکشاں کے انعقاد کے بعد تنویر کو کہکشاں میں شامل کرنے کا اصل مقصد یہ تها کہ کہکشاں کو ایک اچهے قاری کی ضرورت تهی.... اور تنویر نے کہکشاں کو اپنے حوالے سے کبهی مایوس نہیں کیا... ہر ایک چهوٹے بڑے قلمکار کو پڑهنا اس پر کهل کر ادبی گفتگو اور اظہار خیال کرنا وہ اپنی ذمہ داری سمجهتے ہیں... صرف کہکشاں ہی نہیں "تنویر" ہر گروپ میں "اشرف" ہیں....  اصولوں کی پاسداری خوب کرتے ہیں... اللہ نے ایسی شخصیت بنائی ہے کہ محفل میں نمایاں نظر آتے ہیں.....  طبیعت میں معصومیت ہے جو عمر کا تقاضہ ہے...... ابهی ان کے یہاں شعور کا در پوری طرح نہیں کهلا لیکن  جب ان کی شاعری پڑهیں تو اندازہ ہوگا ایک سنجیدہ شاعر ان  کے اندر نواس کر رہا ہے......
تنویر نے کافی عرصے تک خود کو قارئین کے فہرست میں  شمار کیا مگر شاعری کا جراثم جو ان کے سارے گهرانے میں پهیلا ہوا ہے انہیں بهی چاٹ گیا...... نہیں... ابهی تو صرف جراثم لگا ہے...  ابهی ان کے خیالات کے کمالات باقی ہیں........ ان کے یہاں امکانات روشن ہیں....
تنویر ذاتی طور پر بہت حساس  لڑکا ہے.
اس کے گروپ سے  پہلی بار نکلنے کے بعد جس طرح سے اس نے مجهے محبت اور امید سے لبریز تفصیلی میسج کیا جسے میں بهول نہ سکی.... اس کی نادانی مجهے اس لئے اچهی لگتی ہے کہ وہ ابهی معصوم شہزادہ ہے
کہکشاں میں تمہارا.... سوری آپ کا انٹرویو پڑه کر اچها لگا...... ابهی کچه دیر میں جوابات پر اظہار خیال کروں گی...
شاد رہو ہمارے چهوٹو.....
(زارا فراز)
محترم تنویر اشرف صاحب
کو میں بہت زیادہ دنوں سے نہیں جانتا - ان کی میری ملاقات  "  ادبی کہکشاں  "   میں ہی ہوئی - اور ہمیں ملانے کا ذریعہ میرے نانا جان  محمد ہارون اکسیر صاحب کی ایک حمد بنی
خدایا تو جسے رشد و ہدایت بخش دیتا ہے
اسے ذوقِ عبادت شوقِ طاعت بخش دیتا ہے
جب میں نے بطور انتخاب اس حمد کو ادبی کہکشاں میں پیش کیا تو تنویر نے فوراً کہا کہ یہ حمد تو میرے دادا کی ہے -
پھر پرسنلی بات کرنے پر پتہ چلا کہ آپ محمد اسماعیل یارعلوی ماما کے بیٹے ہیں -
تنویر اشرف  ادبی گھرانے اور ماحول کے اثر کی وجہ سے کم عمری میں ہی لکھنے اور پڑھنے لگے - یہ خدا داد صلاحیت عمر نہیں دیکھتی -
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اس انٹرویو ایونٹ میں شرکت کی -
اور اس کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں -
مولا سے دعا ہے کہ آپ کو خوب ترقی دے کامیابی دے اور قلم میں بھی خوب طاقت عطا کرے -
(مجاہدسلیم)
تنویر اشرف بھائ۔۔شہر عزیز مالیگاؤں کے سب سے کم عمر شاعر و مبصر۔۔محترم استاد سخن ہارون اکسیر صاحب کے بھتیجے اور حافظ محمد اسماعیل یارعلوی صاحب کے فرزند۔۔ماشاء الله ۔ قربان جاؤں اس قلم پر  اور اس تناور درخت پر آئے میٹھے ثمر پر کہ جس نے ادب کی زندگی میں شاید پالنے (  جھولے )سے ہی قدم رکھ دیا ہے۔
کہتے ہیں نا کہ بچے کے پیر اس کے جھولے    سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ شاید امی نے پہچان بھی لئے ہوں گے کہ بچے کی غوں غاں میں بھی شاعری کی بحر موجہ زن ہوگی۔۔
جب مجھے مالیگاؤں فورم میں شامل ہونے کا موقعہ مجاہد سلیم کے توسط سے ملا تب ورڈساپ پر گفتگو ہوئی تو یوں لگا کوئ باوقار شخصیت کے روبرو ہوئ لیکن آج تصویر دیکھی تو ماشاء الله، سبحان الله کیا کہنے کہ ابھی تو شعور کی ڈگر پر قدم رنجا فرمایا ہے اور متانت تو دیکھیں اس خوشبودار پھول کی کہ سارا گلستاں مہک اٹھا۔
ادبی افق کے تابندہ ستارے!!! 
اب میں آپ کو تنویر بھائ تو کہہ ہی نہیں سکتی۔میرے صاحب زادے سے بھی چھوٹے جو ہو ۔۔اب تو سیدھے سیدھے " تنویر" کہوں گی۔میرا کیا میں نے تو زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ لی ہیں اور ویسے بھی آپ میرے سسرالی رشتہ دار ہوئے تو رشتوں کا تقدس بھی لازم ہے۔۔سمجھے بچے!!!
اگر برا لگے تو چپکے سے آکر بتا جانا۔۔ٹھیک ہے ۔
اب چلتے ہیں انٹرویو کی جانب۔۔
اسم بامسمیٰ ہو ماشاء الله سے۔
شاید قلم کو جب تھاما ہوگا تب گھر کی درودیوار سے بھی صدائیں آئیں ہوں گی
" تنویر نے بھی لکھنا شروع کر دیا" کیا کہنے اس ادبی ماحول کے۔
زارا بہن نے خوب کیا کہ آپ سے نظم لکھوا ہی دی۔
واہ۔۔بھائ کی ذمہ داری  خوب نبھا رہے ہیں۔۔اللہ تعالی مزید سرخرو فرمائے۔آمین۔
اظہر جمیل بھائ کی نیو ایرا اسکول کو صرف سامنے سے دیکھا ہے۔ان شاء الله اس بار ضرور ویزٹ کروں گی۔
ان کا قلم پالیا اب تو درخشاں مستقبل راہ تک رہا ہے۔ان شاءاللہ۔
آزاد نظم اور غزلیں پسند کرتے ہیں۔۔بہت خوب۔
ایک ریسرچ اسکالر کی کتاب پر تبصرہ لکھنا بڑی جانفشانی کا کام ہے۔بہت خوووب۔
لکھیں ۔۔ضرور لکھیں افسانچہ بھی۔ہم سراپا منتظر ہیں۔
ماشاء الله ۔ذمہ داری اور پڑھائ دونوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔۔بہت آگے جاؤگے یاد رکھنا۔میرے تجربے شاہد ہیں اس بات کے۔
پتہ ہے۔ آدھی رات میں قدرتی طور پر کچھ خصوصی ریز دنیا پر اثر انداز ہوتی ہیں اس وقت عبادات اور ذہنی کاموں کا لطف کچھ اور ہی مزہ دیتا ہے۔۔
اور سنو!  شادی کے کارڈ بنیں تو مجھے بلانا نہ بھولنا۔۔میں ویسے موسم باراں سے لطف اندوز ہونے آتی ہوں۔
مختلف جرائد و اخبارات میں تحاریر پر دلی مبارکباد ۔
بہت صحیح۔۔ایک دم صد فی صد درست کہ آج کے نوجوان کی شناسائی غزلوں سے نہیں۔
وجہ روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم والدین نے بچوں کو انگریزی سے جوڑ کر اپنی زبان سے دور کر دیا۔۔لیکن مالیگاؤں ایک ایسا شہر ہے جس کی مٹی کو شاید ادب سے گوندھا گیا ہے۔
بالکل۔۔قلم کا ساتھ کبھی نہ چھوڑنا کہ یہی ہماری شناخت ہے۔
سچ ہے فرقہ واریت نے ذہنوں کو بانٹ دیا ہے۔
ادبی کہکشاں زندہ باد!!!!
(فریدہ انثار)
******************************
*1: سب سے پہلے تو آپ اپنا نام ....قلمی نام بتائیں اور یہ بهی کہ یہ نام آپ نے کیوں رکها؟*
⚪جواب :- نام انصاری محمّد تنویر اشرف محمّد اسمعیل یارعلوی ..... قلمی نام تو فی الحال تنویر اشرف ہی لکھتا ہوں۔ نام رکھنے کی وجہ بچپن سے ہی گھر کا مذہبی علمی و ادبی ماحول والدِ محترم کے حکم سے تنویر نام پڑا۔ آگے چل کر مرشدِ گرامی کی نسبت نام تنویر اشرف ہوگیا۔
*2: آپ نے لکهنے کا آغاز کس سن میں کیا؟آپ کی پہلی تحریر کیا تهی؟*
⚪جواب :- جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں گھر کا ادبی ماحول تھا لکھنا اس وقت شروع کیا جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا والدِ محترم اور بھائیوں کی شاعری دیکھ کر لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور بہت چھوٹے پَن میں غزل نعت وغیرہ لکھ ڈالی .... بغرض اصلاح والد صاحب کو دکھانے پہنچا تو گھر والوں نے مزا لینا شروع کردیا۔ واہ بھئی تنویر نے بھی شاعری شروع کردی۔ اسوقت میری حوصلہ شکنی ہوئی۔ (والد صاحب نے حوصلہ شکنی تو نہیں کی لیکن گھر والے .....)  پھر اس کے بعد شوشل میڈیا پر محترمہ زارا فراز صاحبہ کے حکم سے اپنی پہلی آزاد نظم غالبًا 25 جنوری 2017 کو لکھی۔
*3: اپنے ادبی سفر کے کارنامے یا کوئی دل چسپ واقعہ سنائیں؟*
⚪جواب :- ادبی سفر تو نہیں کہ سکتا میں خود ایک طالبِ علم ہوں۔ اتنا ضرور کہونگا کے ادبی پلیٹ فارم سے روشناش کرانے میں میرے پیچھے سب سے زیادہ ہاتھ میرے بڑے بھائی محترم اسد ہاشمی صاحب کا ہے۔ انہیں کی عنایتوں سے بہت ہی کم عمری میں میرے کاندھوں پر ایک ذمّے داری بطورِ ایڈمن تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ کی دی گئی۔ جسے میں نے اب تک بڑی ذمّے داری سے نبھایا ہے۔ دلچسپ واقعہ میں ایک واقعے کا تذکرہ کرنا چاہونگا۔ بچپن سے ہی اسکول مدرسوں میں مختلف ادبی ثقافتی پروگراموں میں حصّہ لینے کی عادت تھی گزشتہ دیڑھ دو سال قبل شہرِ مالیگاؤں کے اردو میڈیا سینٹر پر جاری پانچ روزہ کریئر گائیڈنس ورکشاپ میں بطورِ طالبِ علم شریک ہوا۔ وہاں لیکچر کے دوران بطورِ مہمان نیواراء اکیڈمی کے چیئرمن محترم اظہر جمیل سر بھی تشریف فرما تھے ان کے سامنے جب میں نے مختصر سی تقریر کی تو سر نے خوش ہوتے ہوئے مجھے بطورِ تحفہ اپنی قلم سے نوازا۔ اور یہ خواہش ظاہر کی کہ تنویر تم مستقبل میں اگر وکالت یا صحافت (جو میری منزل ہے) کا پہلا مضمون لکھنا تو میری قلم سے لکھنا۔
*4:آپ کو اردو ادب کی کون سی صنف پسند ہے؟اور آپ کس صنف پر اچها لکھ سکتے/سکتی ہیں؟*
⚪جواب :- اردو ادب کی اصناف میں زیادہ پسندیدہ آزاد نظم اور غزل ہے ۔ اور فی الحال غزل کی طرف زیادہ توجہ ہے کیونکہ میں نے خود بھی غزل کی طرف پیشقدمی کی ہے ۔
*5: اپنی لکهی ہوئی کوئی تخلیق جو آپ کو پسند ہو؟*
⚪جواب :- اپنی لکھی ہوئی پسندیدہ تخلیق میں ایک تبصرہ جو میں نے محترمہ صالحہ صدّیقی صاحبہ ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی کتاب (ڈرامہ) "علّامہ" پر لکھا تھا۔
   دوسری ایک غزل جو میں تھوڑے ہی دن قبل لکھی ہے۔
*6: کوئی ایسی تحریر جو آپ لکهنا چاہتے/چاہتی ہوں؟*
⚪جواب :- افسانچہ میں لکھنا چاہتا ہوں جو مجھے پسند بھی ہے ۔ اور مجھے اس میں ذاتی دلچسپی بھی ہے۔
*7: آپ کی مصروفیت کیا ہیں؟کیا آپ ان مصروفیات سے مطمئن ہیں؟*
⚪جواب :- مصروفیت میں .... دن بھر اپنی دکان پر رہتا ہوں نائٹ کالج سے بی اے کر رہا ہوں۔ بقیہ فرصت کے اوقات میں شوشل میڈیا پر ادبی گروپس سے وابستگی اور مطالعہ ..... اپنی مصروفیت سے بہت حد تک مطمئن ہوں۔
*8: آپ کا پسندیدہ رنگ، موسم، پهول اور خوشبو؟*
⚪جواب :- پسندیدہ رنگ میں ہلکا گلابی رنگ پسند ہے ۔ ٹھنڈی کا موسم بہت پسند ہے۔ عام طور پر جو لوگ پسند کرتے ہیں گلاب کا پھول اور گلاب کی خوشبو .
*9: آپ لکهنے کے لئے کس طرح کا ماحول پسند کرتے/کرتی ہیں؟*
⚪جواب :- پُرسکون ماحول ... عام طور پر سونے کے وقت اپنے کمرے میں یا آدھی رات کے وقت لکھنا پسند کرتا ہوں۔
*10: کیا آپ اپنی نجی زندگی کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے/گی؟*
⚪جواب :- فی الحال تو سنگل ہیں۔ دعا کیجئے ...... ہاہاہا
*11:  آپ کی کوئی تصنیف  ہے؟ انٹر نیٹ پر آپ کی تخلیق کسی فورم یا ویب پر دستیاب ہو سکتی ہے؟*
⚪جواب :- آنلائن اردو ڈاٹ کام پر میرا مختصر تعارف ....
https://onlineurdu.com/adbimanzarnama/tanveer-ashraf-introduction-and-poems/
اسی طرح میرا ترتیب دیا ہوا ایک سلسلہ بنام "تعارف شعرائے مالیگاؤں" - "ہمارا مالیگاؤں فورم" پر
www.hamaramalegaon.blogspot.com
*12: آپ کی تخلیق ہندوستان کے  کن رسائل و اخبارات میں شائع ہو چکی ہے ؟ پہلی تحریر کب اور کہاں شائع ہوئی ؟*
⚪جواب :- تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ کی ادبی خدمات مقبولیت اور انفرادیت پر دو مرتبہ روزنامہ "انقلاب" کے نمائندے نے اپنے اخبار میں ہمارے ادبی کاموں کو اجاگر کیا۔ پہلی تخلیق غالبًا اپریل فول کے موضوع پر مقامی اخبارات میں شائع ہوئی۔ گزشتہ دنوں ماہنامہ "پاسبان" میں تبصرہ شائع ہوا۔
*13: آپ کے پسندیدہ شاعر،ادیب یا شخصیت؟*
⚪جواب :- گزرے ہوئے شعرائے کرام میں علّامہ اقبال ، مرزا غالب ، اور ادیب میں سعادت حسن منٹو پسند ہیں۔ موجودہ دور میں طاہر انجم صدّیقی صاحب ، زارا فراز صاحبہ کے کلام اور نثری تخلیقات کو پسند کرتا ہوں۔
*14: اردو ادب کے حوالے سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟*
⚪جواب :- یہ سوال میرے لیے آسان ہے بڑے ادیب و شاعر بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں ہاں بھئی ہم اردو ادب کے حوالے سے کافی مطمئن ہیں بہت کام ہو رہا ہے اس میں .... لیکن کالجس میں اردو ادب کو نوجوان نسل اتنا نظر انداز کر رہی ہیں کہ خدا کی پناہ .....
    فی الحال میرے ساتھ کالج میں جن دوستوں نے اسپیشل مضمون اردو لیا ہے انہیں یہ تک نہیں پتہ کہ غزل کیا ہوتی ہے؟ افسانہ کیا ہوتا ہے؟ ششماہی امتحان کے نتائج بتاتے ہوئے استادِ محترم نے ایسے ایسے انکشافات کیئے سن کر حیرت بھی ہوتی ہے اور صدمہ بھی پہچنتا ہے کہ اردو ہماری مادری زبان ہے اور ہم ہی اس سے بھاگ رہے ہیں۔
*15: آپ جو لکهتے ہیں کیا اس سے مطمئن ہیں؟.....کیا آپ، کبهی  لکهنا چهوڑ سکتے/سکتی ہیں؟*
⚪جواب :- اساتذۂ کرام جب کلام پر نظرِ ثانی کر دیتے ہیں تو مطمئن ہوجاتا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں لکھنا چھوڑ سکتا ہوں۔ کیونکہ ادبی دوستوں کی حوصلہ افزائی اور کئی معتبر و مستند اساتذۂ کرام کی قلم جو بذاتِ خود انہوں نے میرے حوالے کی پھر میں لکھنا کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔
*16: آپ لکهنے کے لئے کس چیز کا استعمال کرتے/کرتی ہیں؟ قلم کاغذ یا موبائل...؟؟؟*
⚪جواب :- فی البدیہہ کچھ ذہن میں آجائے تو موبائیل ہاتھ میں رہتا ہے اس کا استعمال .... اور جب مکمل لکھنے بیٹھوں تو قلم اور ڈائری کا استعمال کرتا ہوں۔
*17: اپنے مذہب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟*
⚪جواب :- اسلام خدا کی طرف سے آخری دین اور مکمل دین ہے جو انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور آج کی سسکتی ہوئی انسانیت کو امن اور سکون کی دولت عطا کرتے ہوئے دنیاوی کامیابی کے ساتھ اخروی نجات کا باعث بن سکتا ہے۔
*18: آج جو ہندوستان کے حالات ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے/گی؟*
⚪جواب :- موجودہ ہندوستانی حالات سے بالکل بھی اطمینان نہیں ہے کے یہاں ڈیمو کریسی نظام کی بجائے مودی کریسی نظام چل رہا ہے۔ بھگوا تنظیمیں اعلی الاعلان مسلمانوں کے خلاف کام کررہی ہیں اور ہمارے مسلم رہنما فرقہ واریت میں بٹے ہوئے ہیں۔
*19:  ادبی کہکشاں میں شامل ہو کر آپ کو کیسا لگا؟ اس گروپ کی کوئی ایسی شخصیت جس نے آپ کو متاثر کیا ہو؟*
⚪جواب :- ادبی کہکشاں میں شامل ہوکر بہت خوشی ہوئی۔ جن شخصیت نے مجھے اہلِ کہکشاں سے متعارف کروایا میری مراد زارا فراز صاحبہ سے .... متاثر بھی اُنہیں سے ہوں۔ ان کی تحریروں کا سنجیدہ قاری بھی ہوں۔ ادبی کہکشاں میں اساتذۂ کرام سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا ملتا ہے اور ان شاء اللہ ملتا رہے گا۔ اس بزم کے بے لاگ  تنقید و تبصرے من کو بھاتے ہیں۔
  اپنے قلم کو کبھی آلودہ نہ ہونے دیں، ہمیشہ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے بے لاگ بولیں، بے لاگ تبصرہ کریں، حق کی بے باک حمایت کرتے رہیں۔ یہ تمام خوبیاں کہکشاں میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔
اس موقع پر خصوصی شکریہ برادرِ محترم مجاہد سلیم صاحب کا بھی ادا کرتا چلوں کہ انہوں نے کہکشاں انٹرویو ایونٹ میں میرا نام بھی شامل کیا۔ ادبی کہکشاں کیلئے ان کی خدمات قابلِ تعریف و لائقِ مبارک باد ہیں۔
*20: اپنے قاری کے لئے کوئی پیغام؟*
*⚪جواب :- اپنے قارئین کیلئے پیغام .....*
اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
میں "میر" کی ہمراز ہوں "غالب" کی سہیلی​

اس نظم کا آخری بند مجھے پریشان کرتا ہے
اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی​
اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
قارئین اردو سے گزارش اردو کو کہیں بھی اکیلی نہ چھوڑیں ..... کیونکہ :

*" اردو کے فروغ میں آپ کی ہر کوشش لائقِ احترام ہے "*

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages