Breaking

Post Top Ad

Sunday, September 30, 2018

رسمِ محبت کو نبھاتے ہی رہیں گے

رسمِ محبت کو نبھاتے ہی رہیں گے 
دشمن کو گلے سے بھی لگاتے ہی رہیں گے
کرتے رہے جو دشمنی ہر وقت میر ے ساتھ
میں ان کی مشکلوں میں مددگار ہو گیا
جو مشہور کردے مجھے اس جہاں میں
میں اپنے لئے وہ ہنر چاہتا ہوں
عجیب بات ہے ہم جن سے پیار کرتے ہیں
ہمارے دل پہ وہ خنجر چلا ئے جاتے ہیں
دل سے تم آواز دو آجاؤں گا
میں کسی کا دل دکھا سکتا نہیں
اک نظر ہی مجھے دیکھا ہے مگر جانِ جگر
مجھ کو لگتا ہے کہ برسوں سے ہے ناطہ اپنا
کس سے شکوے کروں تم کہو دوستو
خود مجھے زندگی نے رُلایا بہت
یوں ماں کی دعا کرتی ہے سر پرمرے سایہ
نزدیک میرے کوئی بلا تک نہیں آتی
آگ نفرت کی لگا دیتے ہیں دنیا میں یہی
زہر آلودہ خیالات سے جی ڈرتا ہے
شہر میں بہتے لہو کی ندّیوں کو دیکھ کر
دل کھنچا جاتا ہے اپنا آج صحرا کی طرف
عشق میںپھاڑ دیا جیب وگریباں اپنا
وہ نظر آتے ہیں اب پیار میں پاگل کی طرح
بلا کی موج نے گھیرا ہے مجھ کو
مری قسمت میں کیا ساحل نہیں ہے


غلام سرور ہاشمی

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages