غزل
زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
مقابل میں دھواں رکھا ہوا ہے
مرے اجداد کی ہے وہ نشانی
جو گاؤں میں مکاں رکھا ہوا ہے
مری ناکام حسرت کا جنازہ
نہ جانے وہ کہاں رکھا ہوا ہے
بروئے کار لاؤں حوصلوں کو
مرے آگے جہاں رکھا ہوا ہے
چلو کشتی کو دریا میں اتاریں
کہ سر پر بادباں رکھا ہوا ہے
تمناؤں کا جو مسکن تھا اصغر
وہ میرا دل کہاں رکھا ہوا ہے
*اصغر شمیم
No comments:
Post a Comment