Breaking

Post Top Ad

Tuesday, October 2, 2018

غزل


غزل

زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
مقابل میں دھواں رکھا ہوا ہے

مرے اجداد کی ہے وہ نشانی
جو گاؤں میں مکاں رکھا ہوا ہے

مری ناکام حسرت کا جنازہ
نہ جانے وہ کہاں رکھا ہوا ہے

بروئے کار لاؤں حوصلوں کو
مرے آگے جہاں رکھا ہوا ہے

چلو کشتی کو دریا میں اتاریں
کہ سر پر بادباں رکھا ہوا ہے

تمناؤں کا جو مسکن تھا اصغر
وہ میرا دل کہاں رکھا ہوا ہے

*اصغر شمیم

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages