بگڑا موسم ہے سفر یار کروں یا نہ کروں
ٹوٹی کشتی ہے ندی پار کروں یا نہ کروں
بڑی بے چینی تھی شب بھر وہ ابھی سوئے ہیں
دن نکل آیا ہے بیدار کروں یا نہ کروں
وہ بڑے باپ کی اولاد میں غربت میں پلا
اس سے میں عشق کا اظہار کروں یا نہ کروں
تم کو رسوائی کی ذلت سے بچانے کے لیے
’’خود کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں‘‘
کارِ عصیاں میں وصی واجدی شامل کرکے
دوسروں کو بھی گنہگار کروں یا نہ کروں
وصی مکرانی واجدی(نیپال)
No comments:
Post a Comment