Breaking

Post Top Ad

Thursday, October 31, 2019

گلاب کے لیے پیش لفظ

گلاب کے لیے پیش لفظ

کائنات میں انسان کا بہترین دوست مطالعہ ہے تعلیم کااصل مقصدذوق پیداکرناہے پھر وہ اپنا راستہ خود نکال لیتی ہے۔علم کے ساتھ ساتھ صحیح ذوق بھی ضروری ہے،علم کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو اگر ذوق نہ ہو تووہ علم بے ثمراوربےنتیجہ ہے ہرشخص سےاس کی قابلیت کے لحاظ سے کام لیاجاتاہے تووہ سودمندہوتاہے۔بچوں کی صحیح نش ونمامیں جہاں والدین اوراستادکاہاتھ ہوتاہے وہیں شاعر وادیب بھی ان کی صحیح تراش کاحقدار ہے بچوں کاادب ان کی اصلاح ان کے اندر ادبی اوراخلاقی ذوق پیداکرنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔بچپن ہی سے اگر بچوں کے مطالعہ میں اچھامثبت ادب شامل ہوتو یہ بات یقینی ہے کہ آگے چل کر ان کا ذہن سنجیدگی اورپختگی کاحامل بن جاتاہے زندگی ایک ہیراہے جسے تراشنا ہماراکام ہے اوربچوں کاذہن تراشنا فنکار کا کام،اسے چاہے جس روپ میں ڈھال لو۔ان ہیروں کوتراش خراش کے بعدایک صحیح روپ دیناان کی روشنی کو عالم میں پھیلاناایک بیحد اہم مقدس فریضہ ہے۔
ظہیرالدین ظہیرؔرانی بنوری کرناٹک کے ایک سنجیدہ شاعر ہیںمیںنے پچھلے کئی سالوں سے ان کو فن شاعری میں بتدریج ترقی اورشہرت کی راہیں طے کرتے دیکھاہے انہوں نے بچوں کے ادب میں زیادہ دلچسپی لی ہے یہ ان کاتیسرا مجموعہ کلام ہے۔ جوبچوں کے لیے ہے۔میرے سامنے ظہیرؔصاحب کی نظموں کامجموعہ ’گلاب‘ہے جس کی تازہ بہ تازہ مہکتی پنکھڑیاں ذہن کومعطرکررہی ہیں۔ظہیرؔصاحب نے مجھ سے پیش لفظ لکھنے کی جس خلوص اورمحبت سے فرمائش کی اس کے جواب میں نہ کرتے نہ بنی۔انکی نظموں میں مجھے سادگی اورپرکاری نظرآئی جوسادہ لفظوں میں ہرنظم کوسنواراگیاہے۔آسان اردو بچوں کی سمجھ میں آسکے اورانہیں متاثربھی کرسکے۔یہ مجموعہ بچوں کے لیے ہوتے ہوئےبھی بڑوں کے خاصے کی چیزبھی ہے۔
حمدونعت اوردعابالکل سیدھے سادے لفظوں میں کہی گئی ہیںاثربھی رکھتی ہیں۔قومی نظم’۱۵اگست‘ ’۲۶جنوری ‘’بھارت ماںکےبیٹے‘بھی قابل توجہ ہیں۔اوربچوں کوزبانی یاددلائی جاسکتی ہیں۔ نظم’ ماں‘’بہن‘جوہمارے معاشرے کے دوایسے ستون ہیں جومحبت اورایثار کانمونہ ہیں۔جوخاندان کی محورہوتی ہیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں۔ان نظموں سے بچوں کے دلوں میں ماں اوربہن کی محبت اورعظمت کامقام پیدا ہوسکتا ہے۔ ’برسات‘اور’باغ میں جائین‘یہ نظمیں ہمارے کرناٹک کی برسات کابھرپورنظارہ پیش کرتی ہیں۔یہ نظمیں ہلکی پھلکی برکھاکی پھوار جیسی تازہ اورخوبصورت لگتی ہیں۔ہمارے نونہال یقیناً 
ان نظموں سے مستفیض ہوسکتے ہیں۔ظہیرؔصاحب نے بچوں کی اصلاح کاجوبیڑا اٹھایاہے وہ قابل قدر ہے میری خواہش ہے کہ یہ مجموعہ ’گلاب اسکول اورمدرسوں میں درسی نصاب میں شامل ہوجائے اوربچوں میں عام ہوجائے۔گلاب کے مطالعہ نے میرے سامنے بچپن کی ان یادوں کی تصویرپیش کردی ہے جوعمراوروقت کے دبیزپردوںمیں چھپ گئی تھیں۔

 مرحومہ حسنی سرورمیسور

بتاریخ یکم جون  ۱۹۹۰۔ ۔۔۷اں کراس شیواجی نگر ین آر محلہ میسور

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages