حسرتِ دید کا اقرار کروں یا نہ کروں
اپنی بیتابی کا اظہار کروں یا نہ کروں
لاکھ ہرجائی سہی پھر بھی رفیقِ جاں ہے
تجھ کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں
اک ترے ترکِ تعلق کی شکایت کرکے
’’خود کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں‘‘
لوگ جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
بہرِ محنت انھیں تیار کروں یا نہ کروں
عارفہؔ جاری ہیں ہنگامے یہاں پر پیہم
میں فضا امن کی ہموار کروں یا نہ کروں
عارفہ رخسانہؔ(سدی پیٹ‘تلنگانہ)
No comments:
Post a Comment