ساحلِ صبح کا دیدار کروں یا نہ کروں
شام کا پُل میں ابھی پار کروں یا نہ کروں
کشمکش میں ہے عجب میری دگرگوں حالت
’’خود کو رسوا سرِ بازار کروں یا نہ کروں‘‘
کرچیوں سے نہ مرا دامنِ غم بھر جایے
شیشۂ وقت سے میں پیار کروں یا نہ کروں
یادِ رفتہ کے ستاروں کو اکٹھا کرکے
قلبِ تیرہ کو ضیا بار کروں یا نہ کروں
گزرے اوقات کے سورج کو اگا کر قدسیؔ
حالِ خفتہ کو بیدار کروں یا نہ کروں
اولادِ رسول قدسی(نیویارک‘امریکہ)
No comments:
Post a Comment