Breaking

Post Top Ad

Wednesday, June 3, 2020

Mohammed Badaruddin Urf Qamar Sewani Rubayi ke Azeem Shayer محمد بدر الدین عرف قمرؔ سیوانی :رباعی کے عظیم شاعر

عبد المتین جامیؔ

UrduBazar.P.O:Padmapur
Dist: Cuttack-754200(Odisha)

         محمد بدر الدین عرف قمرؔ سیوانی :رباعی کے عظیم شاعر 

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج سے چالیس سال قبل رباعی گوئی کے ساتھ شجر ممنوعہ کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ غزل گوئی کے علاوہ دیگر صنفوں پر طبع آزمائی کر کے شعروسخن میں کم از کم ۲۵؍۳۰؍ سال تک مشق نہ کرنے تک کوئی بھی رباعی گوئی کے میدان میں قدم نہیں جما سکتا۔اس میں بہت فنّی باریکیاں ہیں اور سب سے بڑی مصیبت اس کے اوزان ہیں۔ اس کے بعد رباعی کے چار مصاریع میں ربط قائم رکھنا بھی مشکل امر ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر مشاہدہ میں یہ آیا ہے کہ گزشتہ تیس سالوں کے درمیان شاعری کا آغاز کرنے والے بہت سے شعرا نے پرانے خیالوں کو باطل ثابت کرکے رکھ دیا ہے ۔صرف یہی نہیں کہ انھوں نے دیگر اصناف سخن پر طبع آزمائی کی بلکہ رباعی گوئی کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنایااور رباعی کے مروجہ ۲۴؍ اوزان پر بھی کمال دسترس کا ثبوت دیا۔سیکڑوں رباعیاں کہیں حتیٰ کہ راقم السطور کے خیالات اگر صحیح ہوں تو دیوانِ رباعیات کم از کم دو درجن تک شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں رباعیوں کے مجموعوں کی تعداد بھی کوئی تین چار درجن سے تجاوز کرچکی ہے ۔ابتدائی دور میں رباعیات کے موضوعات عموماً متصوفانہ، مفکرانہ‘حکیمانہ نیز رندانہ ہوا کرتے تھے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان موضوعات میں توسیع ہوتی گئی اور غزل کی طرح اس میں بھی عصری حالات کی عکاسی ہونے لگی۔ آج کی جدید نسل کی رباعیات میں فنی تسامحات بھی کم سے کم نظر آتے ہیں ۔ زبان بھی سادہ و سلیس ہوتی ہے اور ٹکسالی زبان میں رباعی کہی جانے لگی ہے۔ بعض اصحابِ قلم تو بچوں کے لئے بھی ان کی سمجھ اور استعداد کے مطابق نہایت آسان زبان میں رباعیاں کہنے لگے ہیں۔

رباعی کو جس طرح ہوّا بنا کر پیش کیا جارہا ہے دراصل یہ صنف اتنی مشکل نہیں ہے۔مشق ومزاولت سے اس کو سیکھا جاسکتا ہے۔ بہر حال یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب رباعی کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے اور بیشتر شعرا اس جانب توجہ دینے لگے ہیں۔
بعض وقت ایسی ایسی رباعیاں ہمارے مطالعہ میں آتی ہیں جن کو غزل کے دو مصرعوں میں باندھنا مشکل ہے۔جس سے غزل کے اشعار کے دو مصاریع میں رباعی کے اوزان میں در آئے خیالات مجروح ہونے کے علاوہ غزل 

کی  ساخت کو بھی مجروح کردیتے ہیں ۔
بہر حال آمدم برسرِ مطلب۔ناچیز کو ایک ایسے بزرگ اور کہنہ مشق شاعر کی شاعری پر ادبی محاذِ کے مدیرِ محترم نے اظہار ِ خیال کی فرمائش کی ہے جو ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔میری مراد حضرت قمر ؔ سیوانی سے ہے جن کو شاعری کی بیشتر اصناف پر دسترس حاصل ہے۔غزل‘نظم‘قطعہ‘سہرا وغیرہ کے علاوہ رباعی میں انھیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ فی البدیہہ قطعات اور سہرا لکھنے میں بھی انھیں ملکہ حاصل ہے۔قلندرانہ صفت پائی ہے۔اس لیے اخبارات ورسائل میں چھپنے چھپانے کی طرف کبھی توجہ نہیں دی ۔یہی سبب ہے کہ سیوان سے باہر انھیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔نہ تو کلام کو حفاظت سے رکھتے ہیں اور نہ ہی کبھی مجموعہ شایع کرنے کا خیال آیا۔اب تک وہ جتنے کلام کہہ چکے ہیں اگر حفاظت سے رکھا ہوتا تو متعدد مجموعے شایع ہوسکتے تھے۔اب تک صرف ایک ہی مجموعہ ۲۰۱۱ ء میں ’’رباعیاتِ قمر‘‘ نام سے شایع ہوپایا ہے وہ بھی دوستوں کے مسلسل اصرار پر۔

  ناچیز کو اس مجموعے کے مطالعہ کا شرف تو نہیں حاصل ہوسکا البتہ اس وقت میرے سامنے ان کی صرف ۴۲؍رباعیاں ہیںجن کی روشنی میںحضرت قمرؔ کی رباعی گوئی پریہ چند سطور حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔مجھے یقین ہے کہ مجموعۂ کلام ’’رباعیاتِ قمرؔ‘‘میں شامل سبھی رباعیاں وقیع اور معیاری ہوں گی کیونکہ علامہ ناوک حمزہ پوری، ڈاکٹر شکیل الرحمٰن ،ڈاکٹر ظفر کمالی، پروفیسر طلحہٰ رضوی برق ؔ، ڈاکٹر ارشاد احمد حبیبی اور شین حیات جیسے ذی وقار قلم کاروں اور رباعی کے شعرا ء نے مثبت آرا ء سے قمرؔ سیوانی کی رباعیوں کی توصیف کی ہے۔بہر کیف ۱۹۵۵ء میں شاعری کا آغاز کرنے والے شاعر قمرؔ صاحب کی رباعیوں کا مجموعہ ان کی زندگی کی چھٹی بہاریں گزر جانے کے بعد شائع ہوا۔ ظاہر ہے’’بہت دیرکی مہرباں آتے آتے‘‘کے مصداق ان کا مجموعۂ رباعیات دیر سے چھپا۔ ممکن ہے کہ اور بھی رباعیاں غیر مطبوعہ ہوں گی۔ لیکن جن ۴۲؍ رباعیوں پر مجھے مضمون لکھنے کوکہا گیا ہے وہ سب کی سب اعلیٰ درجہ کی رباعیاں ہیں ۔کئی اوزان میں رباعی کہنے کی ان کی کاوش قابل قدر ہے ۔ان کی رباعیوں سے ان کی فکری صلابت اور بالیدہ شعور مترشح ہے۔سچ مانئے تو میں ان کی رباعیوں میں الفاظ کے دروبست سے بہت متاثر ہوا بلکہ مرعوب بھی ہوا۔ قوافی اور ردیفوں کا برملا استعمال موصوف کی مہارتِ فن کا پتہ دیتا
ہے۔مثلاً رفو‘وضو‘خو،آنچل‘ چل‘غزل اور گرانی‘جوانی ‘پرانی جیسی ردیفوں کو انھوں نے بڑی کامیابی سے نبھایا ہے۔ ذیل کی رباعی ملاحظہ فرمائیں جومروجہ وزن میں فصاحت و بلاغت کا عمدہ نمونہ کہی جاسکتی ہے :
 محنت سے نام بڑا کرتے ہیں ۔غربت میں بھی اکرام بڑا کرتے ہیں
مت دیکھ حقارت سے مزدوروں کو۔چھوٹے ہیں مگر کام بڑا کرتے ہیں

ایک سادہ سی بات لیکن اختصار کے ساتھ آسان زبان میں کہہ دینا ہی کمالِ فن کا اظہاریہ ہے۔ اس رباعی میں دو اوزان استعمال میں آئے ہیں ،پہلے دو مصاریع اور آخری مصرع ہم وزن ہے اور تیسرا مصرع دوسرے وزن میں ہے۔ تینوں مصاریع کے اوزان اس طرح ہیں جن کو رباعی گو شعرا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاًمفعول مفاعیل مفاعلن فع اس طرح:
بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے زنجیر پا مفعول مفاعلن مفعولن فع
رندانِ مسائل ہے سیاست کی فضا مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
اس دور میں جیسے غریبوں کا قمرؔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
جینے کی دعا ہو گی پھانسی کی دعا مفعول مفاعی لن مفعول فعل  
 اس رباعی میں بحر ہزج اخرب کے ۳؍ اوزان استعمال کئے گئے ہیں۔
موصوف اپنی رباعیوں کے بیشتر مصاریع کو اخرب کے وزن پر کاڑھتے ہیں( پیشِ نظر رباعیوں کے تناظر میں) یعنی سبھی مصاریع کی شروعات مفعول کے وزن پر ہوتی ہے ۔صرف دو رباعیاں ایسی گزریں جو بر وزن اخرم میں باندھی گئی ہیں جن کی شروعات مفعولن سے ہوتی ہے جو قدرے مشکل ہیں۔ اس وزن میں ۱۲؍ مصرعے شامل ہو سکتے لیکن ان کی دونوں رباعیاں بر وزن مفعولن مفعولن مفعولن مفعولن (رباعیوں کے چہار مصاریع پھر اسی ایک وزن میں باندھے گئے ہیں) یہاں ایک بات پر شبہہ ہوتا ہے کہ موصوف رباعی کے مروجہ اخرب و اخرم کو ایک ہی رباعی میں باندھنا پسند نہ کرتے ہوں۔بے شمار رباعی گو شعرا کا بھی یہی خیال ہے کہ ایک ہی رباعی میں ۲۴؍ اوزان میں سے کسی کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔ہر قافیہ اور ردیف کی پابندی اور صحیح استعما ل ہو ۔انھوں نے جس وزن کو ان دونوں رباعیوں میں استعمال کیا ہے بہت ہی مشکل ہے۔
کہتے ہیں انسانوں کی بستی بھی صحرا ہے۔بہتا دریا بھی کتنا پیارا ہے
دامانِ گل خالی ہے خوشبو سے۔ہرتتلی کے لب پریہ شکوہ ہے
٭
غم کے عالم میں ہنستا رہ ہر پل۔اس سے نکلے گا مشکل کا حل 
خودداری تعمیری خاکے میں رکھ۔انسانی قدروں کے سانچے میں ڈھل
مندرجۂ بالا دونوںرباعیوں کے آٹھوں اوزان ایک وزن میں ہیں۔مفعولن مفعولن مفعولن فع

لیکن اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ انھوں نے مخلوط اوزان نیز امتیازِ اخرب و اکرم  کے اوزان میں رباعیاں کہی ہیں یا نہیںجس کے بارے میں ناچیز کا ہی نہیں بلکہ کئی بڑے رباعی گو نیز ناقد کا خیال ہے کہ رباعی میں سب جائز ہے۔ بہر کیف جگہ کی قلت اور محدود تعداد میں رباعیوں کے سبب تفصیلی جائزہ پیش نہیں کرسکا۔اگر مجموعہ پاس ہوتا تو موصوف کی شاعری کے سبھی گوشوں پر روشنی دالی جاسکتی تھی۔آخر میں یہ کہوں گا کہ حضرت قمر سیوانی بلاشبہہ ایک نغز گو شاعر ہیں اوراس قابل ہیں کہ اہلِ سیوان انھیں اپنے دل میں جگہ دیں اور خلوصِ دل سے ان کی پذیرائی کریں۔
موصوف کی چند رباعیاں متنوع موضوعات پر بطور نمونہ پیش ہیں:۔
تاروں سے بھرا آیے کہاں سے آنچل۔آنکھوں کے لیے مانگے یہ کس سے کاجل
کنگن اسے جذبات کا پہنایے کون۔غالبؔ کی طرح کون سنوارے یہ غزل
٭
صحرا کی فضا دیتی ہے آواز مجھے۔گلشن کی ہوا دیتی ہے آواز مجھے
شاید ہے وہ اس وقت پریشانی میں۔ساون کی گھٹا دیتی ہے آواز مجھے
٭
دل اپنا کھرا تھا اسے کھوٹا نہ کیا۔کردار کو بازار میں سودا نہ کیا
حالات رہے سخت مگر میں نے قمرؔ۔دولت کے لیے ظرف کا سودا نہ کیا
٭
آنکھوںمیں سموتا ہوں شرمیلی دھوپ۔شیشے میں چھپاتا ہوں پتھریلی دھوپ
جب آکے لپٹتی ہے قدموں سے مرے۔میں سر پہ اٹھاتا ہوں زہریلی دھوپ
٭
مہتاب کے دریا کا کنارا رکھئے۔سورج کی ہتھیلی پہ ستارا رکھئے
رکھئے غمِ حالات کے ہونٹوں پہ ہنسی۔آنکھوں کی حویلی میں نظارا رکھئے
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages