Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Arshad Manchuwi Taruf Wa Ghazal

ارشد ؔمانچوی

گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب جدیدیت پھل پھول رہی تھی ارشد علی مانچوی صاحب نے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ عصری رجحانات سے بھی اثرات قبول کئے لیکن روایات کی صالح قدروں کو بھی پیش نظر رکھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں حدیثِ دلبراں کے قصے بھی ہیں تو زمانے کے سردو گرم لمحوں کا اظہار بھی ہے۔
پورا نام سید ارشد علی ہے۔ ارشد ؔمانچوی ان کی ادبی شناخت ہے۔ موضع مانچہ ضلع ہمیر پور (یو پی) میں ان کی ولادت ایک علمی و ادبی خانوادے میں ۱۹۴۴ء؁ کو ہوئی۔ ادیب کامل ہیں۔ ابتدا میں حضرت شارق میرٹھی سے مشورئہ سخن کیا۔ دورانِ ملازمت علامہ کو ثر جائسی سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ گھر کے ادبی ماحول نے ان کی شاعری کو جلابخشی۔ اب ادبی حلقوں میں اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ ایک نعتیہ مجموعہ’’جام کوثر‘‘ شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے اور غزلیہ مجموعہ زیر ترتیب ہے۔
زیر نظر غزل ان کے فکر صالح کی ترجمان ہے۔ اس میں زخموں کے مداوا اور کردار کی تعمیر کے لئے خوبصورت شعری پیرایہ میں انہوں نے بڑے مفید مشورے دئے ہیں۔
رابطہ۔ مقام مانچہ۔ ڈاکخانہ۔ کنہریا (راگول) ضلع۔ ہمیر پور۔210507(یوپی)

غزل
گونگے نہ بنو ہنستے لفظوں کا کہالے لو
کچھ دل کا لہو دیکر یہ نقشِ وفالے لو

بے چہرہ وجود اپنا کیوں لیکے نکلتے ہو
کچھ رنگِ شفق لے لو کچھ رنگ فضا لے لو

پھر بچھڑے ہوئے لمحے شاید ادھرآجائیں
ان جاگتی آنکھوں کے خوابوں کی عطا لے لو

بستی سے حوادث کی بچ کرتو نکل آئے
کچھ زخم ہی اپنے سر بے جرم و خطالے لو

نادیدہ مسافت سے کچھ کرب رگ وپئے سے
مرنے کا سلیقہ لو جینے کی ادا لے لو

تم طنز و حقارت کے پھینکو نہ ادھر پتھر
ان خاک نشیں خرقہ پوشوں کی دعا لے لو

یہ جاگتی راتوں کے اسرار یہ سر گوشی
پندار خودی توڑو، ارشدؔ کا کہا لے لو

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages