Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Mohammed Shahid Pathan Taruf wa Ghazal

محمد شاہد پٹھان

ادب کے عصری منظر نامہ میں محمد شاہد پٹھان صاحب ایک جواں فکر اور تازہ کار شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے ہیں تاہم ادب کے دیگر شعبوں میں ان کی تخلیقی کار کردگی انہیں ایک کثیر الجہات شخصیت کی پہچان عطا کرتی ہے۔انہوں نے بیک وقت شاعر ’ادیب ‘ ناقد اور محقق کے ایسے عمدہ نقوش مرتب کئے ہیں جسکا اعتراف ظہیر غازیپوری، ڈاکٹر علیم اللہ حالی عبدالا حد ساز، کو ثر صدیقی، ڈاکٹر محبوب راہی، علقمہ شبلی، ڈاکٹر شریف احمد قریشی اور شاغل ادیب جیسے بلند پایہ ادیبوں نے کیا ہے تخلیقی عمر کم سہی لیکن ان کی صلابت فکری اور کشفِ انسانی کا کرب نہایت دھلی دھلائی زبان میں ملتا ہے۔
سوانحی تفصیلات انہوں نے اس بار بھی نہیں دی ہیں۔ اردو میں امتیازی نمبروں سے ایم اے کرنے کے بعد لکچرار کی حیثیت سے تقرری ہوئی۔ فی الحال راجستھان یونیورسٹی کے شعبئہ اردو وفارسی سے منسلک ہیں۔ ان کی شعری و نثری تخلیقات تواتر سے رسائل کی زینت بن رہی ہیں۔ تنقیدی مضامین پر ایک مجموعہ ’’زر نقد‘‘ مارچ ۲۰۰۹ء؁ میں شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے اور شاعری تنقید و تحقیق کے موضوع پر چار مجموعے سنگ زر’شب آہنگ ‘ راجستھان میں جدید شعری رجحانات اور ریاست کوٹہ کی ادبی خدمات زیر ترتیب ہیں۔زیر نظر غزل میں ان کے ذاتی مشاہدات کا عکس دیکھا جا سکتا ہے جس میں آئینہ کی حقیت، دوستوں کی دشمنی اور ان کے فکری روئے پر روشنی پڑتی ہے۔
رابطہ۔ شعبئہ اردو و فارسی۔ راجستھان یونیورسٹی۔ جے پور۔302004(راجستھان)

غزل

میں آئینوں کو کہاں تک سنبھالتا آخر
لکھا تھا ان کے مقدر میں ٹوٹنا آخر

میں دہار مان کے خود آگیا آخر
مقابلے پہ مرا دوست ہی جو تھا آخر

خموش بیٹھے رہے سارے مصلحت اندیش 
فراز دار پہ میں نے ہی سچ کہا آخر

وہ جس کی راہ سے کانٹے ہٹائے تھے ہم نے
ہماری راہ کا کانٹا وہی بنا آخر 

بہت سے خواب نگاہوں میں لیکے آیا تھا 
یہ شہر چھوڑکے وہ آدمی گیا آخر 

ٹپک رہا ہے جو بارش میں میرا گھر تو کیا 
تمام شہر کا چہرہ تو دھل گیا آخر 

اسی لئے اسے رب کریم کہتا ہوں 
جو میں نے مانگا ہے اسنے عطا کیا آخر

حسین تھا مری غزلوں کا آئینہ شاہدؔ
ہر ایک سنگِ حسد اس طرف اٹھا آخر

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages