Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Momin Khan Shoq Taruf Wa Ghazal

مومن خاں شوقؔ

شاعری کے عصری منظر نامہ میں مومن خاں شوقؔ صاحب کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کے فکر وفن سے متعلق اپنی ناچیز رائے کے اظہار کی بجائے چند مستند و معتبر قلمکاروں کی گرانقدر آراپیش کرنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ پروفیسر میر تراب علی فرماتے ہیں۔ ’’شوق صاحب نے غزل کے پیرایۂ بیان کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت خوبصورت موضوعاتی شاعری کی ہے۔ ان کا کلام کلاسیکی اور کسی حد تک جدید رنگ ورس کا حسین وجمیل اظہار یہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر منشا ء الرحمٰن خاں منشاؔ رقمطراز ہیں۔ ’’شوق اردو شاعری کی کلا سیکی روایات کی پا سداری پورے التزام کے ساتھ کرتے ہیں نیز دور حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر گوئی کے اسلوب اور ڈکشن میں جدیدیت کا انداز بھی اختیار کر لیتے ہیں‘‘ بقول ڈاکٹر مسعود جعفری۔ ’’انہیں غزل کی کلاسیکی روایات کا ادراک ہے۔ انہوں نے روایتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیاہے۔‘‘ مذکورہ اقوال کی روشنی سے صاف ظاہر ہے کہ شوقؔ صاحب کی غزلوں میں روایت اور جدیدیت باہم شیر وشکر نظر آتی ہیں۔
ان کے سوانحی پس منظر کی تفصیلات گزشتہ جلدوں میں پیش کی جاچکی ہیں۔ صرف اتنا عرض کردوں کہ حیدرآباد میں ولادت ۱۵؍جون ۱۹۴۱ء؁ کو ہوئی۔ بی کام اور ایف ایس اے اے کا ڈپلومہ لیکر زرعی یونیورسٹی حیدرآباد میں ملازمت کی اور سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی کر کے وظیفہ یاب ہوئے۔ ایک نثری اور پانچ شعری مجموعے اہلِ ادب سے خراج حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ زیر نظر غزل میں ان کے عصری شعور کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
رابطہ۔ اشرف وِلا۔11-3-723ملے پلی۔ حیدرآباد۔500001   ( A.P )

منظر کھلا کھلا ہے، کمی تو نظر میں ہے 
باہر تلاش جس کی ہے وہ شے تو گھر میں ہے


تم مصلحت پسند نہیں ہو تو کیا ہوا 
 ہر مصلحت پسند کسی کے اثر میں ہے 

راہوں کے پیچ و خم سے بھلا کیا ڈرے گاوہ 
 منزل کی دھن ہے اور مسافر سفر میں ہے 

اب زندگی کے نام پہ اشعار کیا لکھیں
 جلتی ہوئی حیات کا منظر نظر میں ہے

اونچائیوں کے خوف سے ہمت نہ ہاریئے  
 پرواز کا شعور ارادوں کے پر میں ہے

اس دور انتشار میں بھی جی رہا ہوں شوقؔ
ہر ایک لمحہ آج بھی اپنے اثر میں ہے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages