Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Sayed Nafees Dasnavi Taruf Wa Ghazal

سید نفیسؔ دسنوی

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی سے سید نفیس دسنوی صاحب ادبی سفرپر گامزن ہیں۔درمیان میں تعطل کا ایک وقفہ بھی آیاجب انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ محکمۂ معدنیات واراضیات کے ایک اہم عہدے پر فائز ہوئے۔منصبی مصروفیات تخلیقی عمل میں مانع ہوئیں لیکن بحیثیت دپٹی ڈائریکٹر سبکدوشی کے بعدنئے جوش اور نئے ولولہ کے ساتھ انہوں نے مملکتِ شاعری میںپھر سے قدم رکھا ہے اور ادب کے عصری منظر نامہ میںتیزی سے ابھرنے لگے ہیںکیونکہ ان کی تخلیقات اب تواتر سے رسائل کی زینت بننے لگی ہیں۔
اس کتابی سلسلہ میں وہ ابتدا ہی سے شریکِ سفر رہے ہیں اور گزشتہ شماروں میںان کے سوا نحی پس منظر کی تفصیلات پیش کی جا چکی ہیں۔پھر بھی اتنا بتادوں کہ کٹک میں ان کی ولادت ۳؍فروری ۱۹۵۰؁ء کوایک علمی وادبی خانوادے میں ہوئی۔والدِ مرحوم حضرت(پروفیسر)سید منظر حسن دسنوی ایک معتبر شاعر اور افسانہ نگار تھے برادر گرامی سید شکیل دسنوی صاحب شاعری میں عالمی سطح پر معروف ہیں،نفیس صاحب کے بھتیجے سید آصف دسنوی بھی ایک جواں فکر اور تازہ کار شاعر ہیں۔ اس طرح نفیس صاحب کو اس علمی گھرانے کی ایک اہم کڑی ہونے کا فخرحاصل ہے۔افسانہ نگاری کا شوق بھی ہے۔متعدد افسانے شائع بھی ہوچکے ہیںلیکن اساسی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔غزلوں میں زندگی کے جمال وجلال کا عکس نمایاں نظر آتا ہے، زیرِ نظر غزل ان کے جمالیاتی‘تعمیری اور انسانی جذبوں کی روشن دلیل ہے۔
رابطہ۔پلاٹ نمبر205/Dسیکٹر۔6 سی۔ڈی۔اے کالونی۔کٹک۔753014(اڑیسہ)-
غزل
اب نظر آتے نہیں وہ قربتوں کے سلسلے
کس قدر بڑھنے لگے ہیں درمیاں کے فاصلے

درد کے کانٹے کبھی تو پھول خوشیوں کے ملے 
تجھ سے ہم اے زندگی کیسے کریں شکوے گلے

اس کے چہرے پر خوشی کی چند کرنیںدیکھ کر 
میرے دل میں بھی مسرت کے کئی دیپک جلے

رات کی تاریکیاں جب راہ میں بڑھنے لگیں
ساتھ میرے چل پڑے یادوں کے روشن سلسلے

میں کبھی تنہا نہیں تھا زندگی کی راہ میں
چل رہے تھے ساتھ میرے رنج وغم کے قافلے

عزم کا پرچم اٹھائے پیش قدمی ہم نے کی
یوں تو پیش آتے رہے ہر اک قدم پر مسئلے

میں نے سچی بات کہہ دی بزم میں آکر نفیسؔ
ان کو میرے شعر کے الفاظ کیوں بیحد کھلے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages