Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Sayed Shakeel Dasnavi Taruf wa Ghazal

سید شکیل ؔدسنوی

عصری ادب میں سید شکیلؔ دسنوی صاحب کا شمار اکابرینِ ادب میں کیا جاتا ہے۔شاعری کے علاوہ ایک صاحبِ طرز ادیب‘ناقد اور مبصّر بھی ہیں۔ متعدد مجموں کے لئے پیش لفظ بھی لکھ چکے ہیں۔چار شعری مجموں:  ۔زندگی اے زندگی‘تنہا تنہا‘کتنی حقیقت کتنا خواب اور دلِ ناآشنا کے خالق ہیں۔آپ کے والدِ مرحوم پروفیسر سید منظر حسن دسنوی صاحب بھی اپنے دور کے ایک کامیاب شاعر اور افسانہ نگار تھے۔شکیل صاحب کی ولادت۲۰ ؍فروری ۱۹۴۱؁ء کو بہار شریف میں ہوئی۔والدِمحترم کا تقرر جب کٹک کے راونشا کالج میں ہوا تو آپ بھی ان کے ہمراہ کٹک آگئے۔یہیںانجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی اور کلکتہ یونیورسیٹی سے ایم۔ای(پی۔ایچ) کرنے کے بعدحکومتِ اڑیسہ کے تحت انجینیر مقرر ہوئے اور سپرنٹنڈنٹ کے عہدے تک ترقی کرکے سبکدوشی ہوئی۔
شکیلؔ صاحب خالصتاً غزل کے شاعر ہیں۔غزل کا فن جس نرم اور دھیمے دھیمے لہجہ کا متقا ضی ہے‘ان کی غزلیں اسی سانچے میں ڈھلی نظر آتی ہیں۔یہ غزلیںکبھی رومانی فضاؤں کی ٹھنڈک لئے ہوتی ہیں تو کبھی زندگی کے تپتے ہوئے ریگزار میں آبلہ پائی کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان میںقوسِ قزح کے مختلف شیڈس ہوتے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ اس کتابی سلسلہ کی گزشتہ جلدوں میں کیا جاچکا ہے۔اس بار ان کی غزل کا ایک بالکل نیا اور انوکھا روپ پیش کیا جارہا ہے۔ انوکھا اس لئے کہ یہ موضوع اردو شاعری میں ابتک ان چھوا تھا۔آپ کو یہ غزل ایک ایسی کائینات‘ایک ایسے جہان کی سیر کرائیگی جو عدم آگہی کے پردے میں مستور ہے۔غالباً عالمی ادب کی تاریخ میںپہلی بار ایک شاعر کے ذہنِ رسا نے ان دبیز پردوں کے اس پار دیکھنے کی کوشش کی ہے۔یہ جہان ہے کن فیوکن یعنی تخلیقِ کائینات سے قبل کا۔یہ جہان ہے مابعد قیامت کی صورتحال کا جس کا انکشاف نہ تو آسمانی صحیفوںمیں کہیں ہے اور نہ فلسفیوں اور شاعروں کاذہنِ رسا وہاں تک پہنچاہے۔زیرِ نظر غزل میں پہلی بار شکیل صاحب نے ما بعد قیامت کے تصور کو غزل کے پیکر میں اتارنے کی سعیٔ مشکور کی ہے۔وہ اس کوشش میں کتنے کامیاب ہیں اس کا فیصلہ قارئین ہی کرپائینگے۔(رابطہ۔سی۔۱۲‘سیکٹر ۔۶‘سی۔ڈی، اے۔کالونی۔بیڑاناسی کٹک۔753014 )
غزل

شکستہ خواب کی پرچھائیاں رہ جائینگی باقی  
 کبھی سوچا تری تنہائیاں رہ جائینگی باقی

یہ طول وعرض یہ گہرائی جو رکھتے ہیں فنا ہونگے
مگر کچھ بے رخی سچائیاں رہ جائینگی باقی

یہ سورج چاند تارے ایک دن بے نور بھی ہونگے
شبِ تاریک کی گہرائیاں رہ جائینگی باقی

ردا والے ثوابوں کے‘تو شعلہ پوش بھی ہونگے
وہاں اعمال کی پرچھائیاں رہ جائینگی باقی

گناہوں کے سلگتے‘چیختے پیکر کی صورت میں
تری مخلوق کی رسوائیاں رہ جائینگی باقی

کہانی مختصر بس ایک روشن باب ہے سیدؔ
 جمالِ یار کی رعنائیاں رہ جائینگی باقی

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages