تابشؔ ربانی
کڈپہ کی شعری فضا میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے تابشؔ ربانی آغازِ سفر ہی سے اپنی پہچان درج کرانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری میں اکیسویں صدی کی باز گشت کے ساتھ تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامہ کو گرفت میں لینے کی کوشش بھی نظر آتی ہے۔اس میں انسان کی محرومیوں اور نارسائیوںکا نوحہ بھی ہے اور ایک نئی سحر کی بشارت بھی۔لیکن یہ بات بھی ہے کہ کندن بننے کے لئے انہیں ابھی کڑی ریاضتوں کی بھٹی سے گزرنا پڑے گا۔
پورا نام شیخ محمد ربانی ہے۔ادبی حلقوں میںتابشؔ ربانی کی شناخت رکھتے ہیں۔والدِ محترم کا اسمِ گرامی جناب عبد الجبار ہے۔کڈپہ میں ولادت ۷؍اکتوبر۱۹۸۳ء کو ہوئی۔ایم،اے‘ بی،ایڈ ہیں۔درس وتدریس کا پیشہ اختیار کر کے نونہالانِ قوم کی کردار سازی میں مصروف ہیں۔شاعری سے بھی دلچسپی ہے جس کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۱ء میں کیا۔معروف شاعر وادیب ڈاکٹر اقبال خسرو قادری صاحب کے تلامذہ میں سے ہیں۔زیرِنظر غزل میں سماجی‘اخلاقی اور ماحولیاتی منفی رویوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
رابطہ۔
مکان نمبر۔8/14-5 روندرا نگر۔کڈپہ۔
(A.P)516003
غزل
ہم موت کے تاجر سے بقا مانگ رہے ہیں
اور آج بھی اپنوں سے وفا مانگ رہے ہیں
وہ امن سے جینے کی دعا مانگ رہے تھے
ہم چین سے مرنے کی دعا مانگ رہے ہیں
کل تک جو کیا کرتے تھے دریاؤں کو سیراب
وہ آج صراحی کا پتہ مانگ رہے ہیں
اس شان سے اٹھا ہے اصولوں کا جنازہ
اب لوگ بھی تہذیب جدا مانگ رہے ہیں
مصروفِ ثنا پیڑوں پہ ہیں سارے پرندے
مسجد کے کبوتر بھی دعا مانگ رہے ہیں
سوکھے ہوئے کھیتوں پہ کھڑے دھان کے پودے
بہتے ہوئے دریا کا پتہ مانگ رہے ہیں
No comments:
Post a Comment