Breaking

Post Top Ad

Tuesday, August 18, 2020

اخطبوط Akhboot Afsana

 اشفاق برادر
مکان نمبر135/15
بابو پورہ ،کانپور ۔208023

              اخطبوط 

دوست… تمہاری حیرانی او رپریشانی کو میںخوب سمجھ رہا ہوں۔بس خود کو ذرا تبدیل کر ڈالو۔تنزلی و بے کاری دور ہو جائے گی، شہرت، عزت،دولت میں اضافہ راتوں رات ہو اٹھے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا آپ کے پاس کوئی جادوئی چراغ ہے؟
دوست۔۔۔۔۔۔جان لو! اس سے بھی بڑی چیز ہے۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔سراسر غلط، آپ پریشان گھوم رہے ہیں ، مدد چاہتے ہیں،بھلا میں تمہاری مدد کیوں کروں؟۔۔۔۔۔دوست! ضرورت سے ضروت کو نکالنا ہی حکمت ہے۔۔۔۔۔۔دیکھو بات اخلاقیات کی ذہن میں مت لانا۔۔۔۔۔۔وہ تو اپنی جگہ درست ہے۔۔۔۔۔۔ما ن لو! آپ کو کوئی طاقت ور پریشان کر رہا ہے تو آپ کیا کریںگے؟ ۔۔۔۔۔کسی دوسرے کے پاس جائیں گے کہ نہیں۔۔۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔لیکن وہ مدد کرنے کو نہ تیار ہوا تو۔۔۔۔۔۔اسی طرح کے دوسرے آدمی کے پاس جائیں گے ،یہ مان کر چلیں مفت میں کام نہیں ہوگا اگر رو دھو کے ہوا بھی تو آپ سے ذہنی یا جسمانی کام کرایا جائے گا۔پھر بھی احسان الگ سے لاد دیا جائے گا۔پشت پر طاقتوری کا ٹھپہ تو جھیلنا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔لیکن احسان توکر کے بھول جانے کا دستور زمانے سے چلا آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ہاں! تم ٹھیک کہتے ہومگر طریقہ اب بدل چکا ہے ،تم نے سنا بھی ہوگا اور دیکھتے بھی ہوگے ،فلاں دو منھوا سانپ ہے لیکن اب تو کئی ہاتھ اور منھ کے ہونے لگے ہے ہیں ،ایک طرف چوری کرائی جاتی ہے تو دوسری جانب مخبری بھی کی جاتی ہے۔ ذہن کی ذرا کھڑکیاں کھول کر دیکھو تو تم برف کے بت ہو جاؤ گے کہ جنگ میں اسلحہ بھی بیچا جاتا ہے اور جنگ کو انسانیت کا جہنم بھی بتایا جاتا ہے۔اگر بازار نہیں ہوں گے، تو مخصوص منڈیاں نہیں ہوں گی ، تو تاجروں کا کام کیسے چلے گا۔ان کی فیکٹریوں سے دھواں نکلے گا تبھی تو ترقی کے افسانے گھڑے جائیں گے۔ مرنے والوں سے ہمدردی کے آنسو سے لبریز لہجوں میں خطیر رقموں کو دبے کچلے اور بھوک سے تڑپتے جسموں کو دینے کا اعلان کر دینے میں انسانیت کی سر بلندی کیسے ظاہر ہو گی؟۔۔۔۔۔۔دوست۔۔۔۔۔یہ ذہن بنانا ہوگا کہ جو بھی موجودہ مسائل ہیں یا مستقبل میں ہوں گے ان پر سب سے پہلا حق مدد گاروں کا ہی ہونا چاہئے۔ اس راہ میں جو بھی روڑا بنے گا بربادی اس کا مقدر ہو جائے گی ۔روتی سسکتی انسانیت کے لئے مرہم ہمارے دم سے ہی درکار ہے ۔۔۔۔۔۔غور سے مطالعہ کر۔۔۔۔۔۔دنیا میں کون ہمرے  خلاف ہونے کی جرأت رکھتا ہے۔ خود مقابل سمجھنے والا کتنی جگہوں سے ٹوٹ کر بکھر چکا 
ہے اور وقت ہمارے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ۔ایک حد میں اچھلتا کودتا ہے ۔طرح طرح کے الزامات اس کے سر پر سوار ہو کر رسوائیاں پیدا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔بازار میں ضرورت پیدا کرو پھر اس کے بعد جس طرح چاہو اپنے داموں میں فروخت کرو۔۔۔۔۔۔۔  
دوست کچھ سمجھے۔۔۔۔۔ہماری تعلیم گاہیں ،ہمارا تمدن ،زندگی اور اس کی برق رفتاری ،کھلا پن ،رائے کی آزادی ،بچوں اور عورتوں کے حقوق،انسانیت کہیں بھی جبر کا شکار ہوتی ہوئی دکھائی پڑتی ہے سب سے پہلے کون دیکھا جاتا ۔۔۔۔۔نئی دریافت کسی بھی شعبے میں اور کون دنیا کا امام۔۔۔۔۔۔مدد اور قتل کے ہمارے اپنے طریقے ہیں۔ مگر کون ہے جو چیلنج کو سوچے؟۔۔۔۔۔۔حسن اور چاہت میں قید نہیںہے اگر بات بنتی ہے تو ٹھیک ،نہیں تو قانون اپنا کام کرنے کو آزاد ہے ۔۔۔۔۔بچے کی پیدائش پر باپ کا نام نہیں پوچھا جاتا ہے،ماں ہی ہر طرح سے کافی ہے،پیٹ میں نطفہ آیا کہ ساری ذمہ داری ہمارے یہاں کا دستور ہے اور کہیں ہو تو بتاؤ۔مگر جیسا ہمارے پاس ہے اور کہیں نہیں ہے۔
دوست!میرے پیارے دوست ،شرط صرف ایک ہی ہے کہ ہمارے  ہوجاؤ۔ جو نہیں کماتا ،کھانا کپڑا اور مکا ن،خرچ دیا جاتا ہے،موج مستی کے سارے انتظام ہیں ۔ہماری تہذیب و تمدن میں ترقی ،حکمرانی پوشیدہ ہے۔دنیا ہمارے یہاں آنے کو بے تاب ہے۔کسی بھی طرح کی دہشت گردی نہیں چاہتے ہیں ،قوت سے روک دینے کی کوشش کئی بار کی گئی ہے اور اس کے نتائج بھی خاطر خواہ ہوئے ہیں، جو ہمارا ہوتا ہے ہم بھی اسی کے دوست ،دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو ہماری نگاہ سے اوجھل نہیں ،وہاں کیا ہو رہا ہے ؟ا

گر ہمارے اثر میں نہیں تو مائل بڑھا کر اس کو جھکنے پر مجبور کردینا بھی خوب آتا ہے۔ لاکھوں مثالیں ہیںجو اجاگر ہو گئی ہیں ۔کروڑوں تو ابھی بھی پوشیدہ ہیں۔شاطر نگاہوں سے تمھاری حفاظت ہوتی رہے گی ۔دوست کہہ رہا ہوں۔۔۔ بنانا چاہتا ہوں تاکہ تم میں جو زنگ صدیوں سے لگا ہوا ہے اس کو زندگی ،ترقی، خوش حالی اور انسان دوستی سے بھردوں اس کے لئے میرے دروازے کھلے ہیں۔مجھ کو پہچان لو ۔۔۔۔دیکھ لو ۔۔۔۔۔پھر میری جانب قدم
بڑھاؤ۔۔۔۔۔۔کچھ تنگ دل تم کو برا کہہ سکتے ہیںلیکن یقین جانو اپنے بستر پر لیٹ کر وہ میرے ہی خواب دیکھتے ہیں،مسرور ہوتے اور جاگ مجھے گالیاں دیتے ہیں کہ ان کا وجود گندگی سے لبریز ہے۔ایسے عناصر تیز نگاہوں سے ذبح کردیے جائیں گے۔ہمارے پاس افراد ہیں‘زاویئے ہیں‘پیسہ ہے‘بچ کر کہاں جائیں گے۔سمندر میں اخطبوط سے بیر کیا ہوسکتا ہے؟

بھائی جی!ہاں دوست۔تم کچھ کہنا چاہتے ہوہاں‘اس کے تو لاتعداد آنکھیں ‘ پیر‘ہاتھ ہوتے ہیں۔وہ بہت طاقت ور ہوتا ہے اور لمحوں میں اپنے شکار کو جکڑ کر ختم کردیتا ہے۔۔۔۔دوست تم کیوں گھبرا رہے ہو؟۔۔۔۔۔۔بھائی جی انسان میں بھی تو ہوں۔اس طرح کی خصلت پیدا ہورہی ہے۔ایک قہقہہ دوست کے منہ سے یہ سن کر نکل پڑا اور دیر تک اس کی گونج فضا میں صاف سنائی دیتی رہی۔دوست اور مدد کے نام پر ایسی خوں ریز داستان سن کر انسان تو لرزہ براندام ہویے بغیر نہیں رہ سکتا۔٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages