Breaking

Post Top Ad

Tuesday, August 18, 2020

عیار بابا Ayyar Baba

ڈاکٹر کلب حسن حزیںٹانڈوی
Mohalla Sakhrawal East
Tanda
AmbedkarNagar-224190
(U.P)

        عیار بابا   

چالیس گھروں کے ہریجن ٹولیہ میں تنہا گھر دین محمد بابا کا تھا۔بڑی ریش اور سحر انگیز آنکھوں والے بابا بہت امیر و کبیر تھے۔پاور لوم کی پانچ فیکٹریوں کے علاوہ متعدد بلڈنگ اور کئی فارم ہاؤس ان کی ملکیت میں تھے۔ بابا بہت شہ زور تھے نماز روزہ میں مبرّہ تھے لیکن ان کی دعائیں بہت پُر اثر تھیں پورے ہریجن ٹولیہ کے روحانی معالج تھے۔ صبح چھ بجے سے آٹھ بجے رات تک مریدوں کی حاجت روائی میں لگے رہتے تھے۔ جوان عورتوں کے بانجھ میں انھیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ روزانہ کم سے کم بیس پچیس لوگوں کی حاجت روائی کرتے تھے۔ ان کے کارخانے میں عورت اور مرد دونوں کام کرتے تھے۔ہر ایک کوبابا سے عقیدت تھی اس لئے کام دلجمعی سے کرتے تھے۔ جو مال تیار ہوتا وہ باہر کی منڈیوں میں بھیجا جاتا تھا۔اس کے لئے علاحدہ لوگ متعین تھے۔
لکھنے پڑھنے کا کام بابا بذات خود انجام دیتے تھے ۔ہریجن ٹولیہ میں جو بھی مکان بکتا بابا انہیں خریدتے اور پکا مکان بنوا کر بیچنے والے کو لوٹا دیتے تھے۔بانجھ عورتوں کا علاج رات میں کرتے تھے۔ حیرانی ہے کہ عام طور پر عورتیں بار آور ہوجاتی تھیں۔ گاؤں کے اہل فکر بابا کے جادوئی علاج سے حیران تھے ،چونکہ یہ سارے کام بغیر کسی معاوضہ کے ہوتے تھے اس لئے کوئی تنقید و تنقیص سماج میں نہیں ہوتی تھی۔

ایک دن جب ان کے گھر پر پولیس کی ریڈ پڑی تو معلوم ہوا کہ بابا افیون اور لڑکیوں کے تسکر ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے تاویل کی کہ افیون میرے معالجہ میں ہے۔لڑکیاں ودیس پیسہ کمانے کے لئے اپنی مرضی سے جاتی ہیں۔میں صرف ان کے پاسپورٹ اور ویزا دلانے میں مدد کرتا ہوں یہ بات آپ لڑکیوں کے والدین سے پوچھ لیں۔ان کی سحر زدہ آنکھیں ہر ایک کو مسحور کردیتی تھیں۔کوئی بھی آدمی ان کا سامنا نہیں کرپاتاتھا۔لوگوں میں اندر ہی اندر چہ میگوئیاںہوتی تھیں کہ با با اپنی بانجھ بہو کا علاج کیوں نہیں کرتے۔شادی کے دس سال بعد بھی نعمتِ اولاد سے محروم ہے۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ بابا کے ہاتھ دعا کرتے کرتے ایک لڑکی کے اعضائے حیا پر پڑ گئے ۔اس نے بہت شور مچایا لیکن لوگوں نے اس کے الزام کو مسترد کردیا۔
ان کا آنا جانا کہیں نہیں ہوتا تھا۔بازار کا کام باہر کے لوگ کردیتے تھے۔ وہ صرف میر سجاد کے گھر جاتے تھے ۔ وہاں گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے اور میر سجاد کی زوجہ 
سے باتیں کرتے تھے۔جوحسن و جمال کی میں یکتائے زمانہ تھی۔ میر سجاد کی اتنی مدد کرتے تھے کہ ان کا رہن سہن امراء جیسا تھا۔لوگوں کا کہنا تھا کہ بابا کا سجاد کی بیوی سے ناجائز تعلق ہے۔ا ن کے چاروں بچے بابا کے نطفے سے ہیں۔ بچے بابا کے ہم شکل ہیں۔

بابا پر کسی کے کہنے سننے کا کوئی اثر نہیں تھا ۔سجاد کے گھر جانے سے کوئی انہیں روک نہیں سکتا تھا۔ اب کی جب مسجد کا چندہ ہونے لگا تو لوگوں نے ہزار پانچ سو دے کر وا واہی لوٹی۔لیکن بابا نے یک مشت پانچ لاکھ روپے دیے ۔اس کے بعد بابا کے خلاف اہل ایمان چہ میگوئیاں تھیں ختم ہو گئیں۔محلے کے غریب ماں باپ کی لڑکی کی شادی تھی بابا نے سارا خرچہ اپنے ذمّہ لے لیا۔اسی طرح ایک یتیم ہریجن لڑکی کی شادی کے خرچے کا بوجھ اٹھا لیا۔ان تمام کاموں کی وجہ سے لوگوں کے نظریات بابا کے لئے اچھے ہونے لگے۔
ان کے ایک دوست نسیم صاحب جو بابا کا حقہ پانی لایا کرتے تھے ان کی باتیں اسرار سے پُر تھیں ۔جب تک حقہ میں جان رہتی نسیم صاحب دنیا اور جہان کی باتیںکرتے ۔لوگوں کا خیال تھا کہ دونوں کی گفتگو جنسیات پر مبنی ہوتی تھی ۔نسیم صاحب بھی عورت پرست مشہور تھے۔جب تک وہ بابا کے پاس رہتے بابا ہشاش بشاش رہتے ۔



انسان کا خاصہ ہے کہ تمام محاسن ہوتے ہوئے بھی کبھی کبھی انسان کے قدم بہک جاتے ہیں۔اس دن یہی ہوا بابا ایک عورت کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے،ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔لیکن ہریجن ٹولیہ خاموش تھی۔ ان کی عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اہل ایمان کے لئے تو ایک معاملہ ہاتھ آگیا ۔گھر گھر میں یہی چرچا تھا۔لوگوں کا کہنا تھا کہ بابا بچے دوا سے نہیں بلکہ اپنے نطفے سے پیدا کرتے ہیں،بابا جنسی بیمار ہیں۔ایک دن بابا روپوش ہو گئے ۔کہاں گئے کسی کو خبر نہیں۔کوئی کہتا ممبئی چلے گئے کسی کا خیال تھا دوبئی میں ہیں۔جتنے منہ اتنی باتیں ایک سال بعد بابا یکایک ظاہر ہوگئے ،ظہور کے چھ مہینے بعد دل کے دورے میں راہیٔ ملکِ عدم ہویے۔اب بابا کی قبر مرجعِ خلائق بنی ہوئی ہے۔ 
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages