آواز ایسی آئی کہ دل میرا ڈر گیا
آئینہ اس کی یادوں کا ٹوٹا بکھر گیا
ہم اب بھی منتظر ہیں کہ تعبیر تو ملے
پلکوں پہ خواب ڈھوتے زمانہ گزر گیا
تتلی کے پیچھے بھاگنا‘ گڑیوں سے کھیلنا
بچپن کا وہ حسین زمانہ گزر گیا
تقدیر ہے بلند تو رحمت خدا کی ہے
اسود کا سنگ چوما تو چہرہ نکھر گیا
زرتابؔ شمعِ حسنِ ضیابار دیکھ کر
کیوں جانے میرے اپنوں کا چہرہ اتر گیا
زرتاب غزل
65/1,ColootolaStreet
Kolkata-700073(W.B)
No comments:
Post a Comment