مچل رہی ہے ہوا میں جو پاگلوں کی طرح
بہک رہا ہے مزاج اپنا بادلوں کی طرح
میں خود کو دیکھوں تو چہرہ ترا نظر آئے
سجا لیا ہے تجھے دل میں آئینوں کی طرح
اِدھر کی بات اُدھر پیٹھ پیچھے کرتے ہیں
ہمارے گاؤں میں کچھ لوگ مخبروں کی طرح
ہماری ذات پہ کیچڑ اچھالتے ہیں یہی
ملاتے ہاتھ ہیں ہم سے جو دوستوں کی طرح
بڑے سکون سے عرشیؔ سمجھ رہی ہوں تجھے
میں پڑھ رہی ہوں تری یاد آیتوں کی طرح
No comments:
Post a Comment