وہ میرے ذہن میں رہتا ہے خوشبوؤں کی طرح
اسے میں سوچتا رہتا ہوں منظروں کی طرح
دکھوں کا بوجھ لیے مسکراتے پھرتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں جیتے ہیں پاگلوں کی طرح
مری برائی مرے سامنے بیان کرو
گلے لگاؤں گا وعدہ ہے دوستوں کی طرح
میں سرد رات میں چونکا ہوں جب کبھی‘ مجھ سے
لپٹ گئی ہے تری یاد چادروں کی طرح
کسی بھی جشن کا موقع نہیں ملا مجھ کو
ادیبؔ خوشیاں بھی آئی ہیں رنجشوں کی طرح
No comments:
Post a Comment