Breaking

Post Top Ad

Tuesday, August 18, 2020

شعلۂ چرخ(شاعری) Shu-ala -e- Charkh Shayiri Ka Kalam

 کتاب کا نام 

:شعلۂ چرخ(شاعری)


 شاعر:رستم خاں انعام دار خاک
   مبصر۔عبد المتین جامی ؔ

زیر نظر کتاب’’شعلۂ چرخ‘‘کے شاعر ہیں رستم خاں انعام دار خاکؔ جس کو نثار علی شیخ نے ممبئی سے شائع کیا ہے۔رستم خاں انعام دار نے اپنی بات کے تحت کتاب ھٰذا کی شروعات میں جو کچھ تحریر کیا ہے اس سے ان کی زندگی کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ گو کہ اردو سے وہ بہت کم آگاہ ہیں ۔ہندی میں تعلیم حاصل کر کے ہندی میں ہی مختلف سنیما کے گیتوں پر پیروڈی لکھ کر اسٹیج پر گایا کرتے تھے ۔اس طرح سے عوامی حلقوں میں ان کی پہچان بنی۔ ان کے ایک دوست عبد الرشید انصاری صاحب جو کہ ان کے ساتھ کام کیا کرتے تھے انہوں نے خاکؔ صاحب کی ہندی رسم الخط میں لکھی غزل کی اصلاح کرکے اسے روزنامہ’’آج‘‘ ممبئی شائع کرایا۔
بہر حال ۱۹۳۸ء؁ میں پیدا ہونے والے بزرگ شاعر انعام دار خاکؔ صاحب کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری میں دھماکہ خیز کسی بات کی تلاش کرنا بے سود ہوگا۔ ان کے اندازِ تحریر میں زمانۂ قدیم کے عشقیہ مضامین کی بازگشت سنائی دیتی ہے ، اگر بہت زیادہ کھینچ تان کر یں تو ان مضامین کو تصوف کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے ،تاہم کہیں کہیں زمانۂ حال کا نوحہ بھی ان کی شاعری کا حصہ بنا ہے ۔ورنہ جب وہ فرماتے ہیں کہ :


نسبتِ کعبہ بھی ہے اور ربطِ جانا نہ بھی ہے
خانۂ یزداں بھی ہے دل اور بت خانہ بھی ہے
وہیں ایسا شعر بھی در آیا ہے جہاں مقامات پاکیزہ میں بھی ناپاکی کا گمان گزرتا ہے ۔جدیدیت کے زیر سایہ اب اور کوئی بھی جگہ دنیا داری سے خالی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں :
جگمگا اٹھّے ہیں بازار سیاہ کاری کے۔توبہ توبہ یہ مقامات خدا خیر کرے
موصوف نے اپنی شاعری کے ذریعہ اخلاقی قدروں کو  فروغ دینے کی سعی کی ہے۔مثلاً
حسنِ خلوص دل کی بدولت خریدیئے
جتنی ملے جہاں سے محبت خریدیئے
ان میں چند اشعار ایسے بھی ہیں جن میں کچھ فکری عناصر کارفرما نظر آتے ہیں کی فکر کو نہ صرف انگیز کرتے ہیں بلکہ سوچنے کی دعوت بھی دیتے ہیں مثلاً
ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں جو کہ ہے تصویر میں 
ہے پسِ تصویر کافی کچھ مگر دیکھے گا کون


ناچیز کو یہ انداز بہت پسند آیا امید ہے ان کے قارئین کے دل کو بھی چھو جائے گا۔بہر حال یہ تو شاعرِموصوف کا انداز غزل گوئی ہے مگراس کے دوسرے  رخ پر نظر ڈالیںتو یہ کہنا پڑے گا کہ ابھی ان کو اردو شاعری کے متعلق بہت کچھ سیکھنا ہے کیوں کہ زبان وبیان کی خامیوں کے ساتھ ساتھ شعری لوازمات سے ان کی ناواقفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ جن کی موجود گی میں شاعر کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے۔اس بات کا امکان بھی ہے کہ کمپوزنگ کی غلطی سے بعض اشعار ناموزوں ہوگئے ہوں۔لیکن پروف کو سختی سے جانچ کرنا ضروری ہو تاہے ۔بہر کیف اس مجموعہ میں  بہت سارے اشعار ایسے ہیں جو عروض کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے۔اس مختصر تؓسرے میں ان سب کا حوالہ دینا ممکن نہیں اس لئے مثال کے طورپر چند اشعار کا حوالہ دے رہا ہوں:
ہم سوزِ غم سے پگھل کیوں نہیں جاتے
                  ہر وقت جھلستا ہے تو جل کیوں نہیں جاتے(خارج از بحر)
ہم عام آدمی ہیں شاطر تو نہیں کوئی
          اُلٹا ہے خاک ہم نے ہی اکثر بساط کا(خارج از بحر)
پختگی ہے شرط تعمیروترقی کے لئے
کیوں پریشاں حال معمارِ شہر ہے دیکھئے
                            (شہر کا غلط استعمال۔ہ کو متحرک کردیا گیا ہے)
اس کے علاوہ مندرجہ اشعار نہ صرف غیر موزوں ہیں بلکہ ان سے عجزِ بیان کا اظہار بھی ہوتا ہے۔یعنی شاعر جو کینا چاہتا ہے اس کی ترسیل نہیں ہورہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
کیا تم سے کہیں آخر کہ کیا بھول گئے ہیں۔ہم اپنی ہر اک رسمِ ادا بھول گئے ہیں 
ہوتے ہی گئے سازشِ اغیار پہ فدا۔ہم اپنے بزرگوں کا کہا بھول گئے ہیں
یہی تو ہے تحمل کا مرے صلہ شاید۔میرے چمن میں یوں کھلتا ہے گلاب کوئی
وفا کی راہ تو گزرے ہے ریگزاروں سے ۔دکھائی دے رہا پانی سراب ہے کوئی


مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انعام دار صاحب میں شعر کہنے کی صلاحیت ہے۔چونکہ انھوں نے ہندی شاعری سے اردو کی طرف مراجعت کی ہے اس لئے اردو کے شعری لوازمات سے اب تک پوری طرح واقف نہیں ہو پائے ہیں۔اگر مشق ومزاولت کا سلسلہ جاری رکھیں تو امید ہے کہ آگے چل کر ادبی حلقے میں اپنا مقام بنا لیں گے۔۱۴۴؍ صفحات کو محیط اس مجموعے کی قیمت ۱۵۰؍روپے ہے جسے ذیل کے پتے سے حاصل کیا جاسکتا ہے:۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ۔پرنس بلڈنگ۔ابراھیم رحمت اللہ روڈ۔ممبئی۔۴۰۰۰۰۸

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages