صرف خوابوں کا سلسلہ دے گا
’’یہ برا وقت اور کیا دے گا‘‘
میرے غم میں شریک ہوکر وہ
میل دل سے مرے ہٹا دے گا
یہ ضروری نہیں کہ منصف بھی
میرے حق میں ہی فیصلہ دے گا
مانگ اس سے جو تیرا خالق ہے
تیری امید سے سوا دے گا
میرے گھر کے لیے وہ کافی ہے
روشنی جس قدر دیا دے گا
ایسا پودا لگاؤ آنگن میں
جو پڑوسی کو آسرا دے گا
سن لے عاصمؔ ہے میل کا پتھر
تیری منزل تجھے دکھا دے گا
یونس عاصمؔ
DewanBazar,Cuttack
No comments:
Post a Comment